منگل، 16 دسمبر، 2014

وہ پھول جو بن کھلے ہی مُرجھا گے

سولہ دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے آج کے ہی دن ملک 2 لخت ہوا ایسے سانحات سے قومیں سیکھا کرتیں ہیں مگر افسوس آج سولہ دسمبر 2014 پاکستانی تاریخ میں ایک اور سیاہ دن بن کر اُبھرا پشاور کے ایک سکول میں دہشت گردوں نے حملہ کر دیا اور معصوم بچے جنہیں پھول کہا جاتا ہے جن کے دن کھیلنے کودنے کے ہوتے ہیں جن کی ننھی ننھی خواہشات ہوتیں وہ کیا جانیں کسی لڑائی کو کسی دہشت گردی کو کسی ظلم کو کسی زیاتی ان کی دنیا تو بس وہ ہی ہوتی ہے صبح سکول آنا اور شام گھر جانا مٹی کے گھر بنانا کھلونوں سے کھیلنا وہ معصوم کیا جانیں اس پاک وطن کو کس کی نظر لگ گی وہ کیا جانیں یہ ملک کن کن لوگوں کے ہاتھوں یرغمال ہے وہ معصوم کیا جانیں کہ ان کو کس جرم کی سزا ملی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 15 دسمبر، 2014

یوم سقوط ڈھاکہ

یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

سولہ دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن جس دن ملک پاکستان اپنوں کی نادانی اور انا کی تسکین کی بھینٹ چڑھ کر 2 لخت ہوا مشرقی بازو جسم سے علیحدہ ہو گیا جس کا درد جس کا زخم آج بھی وہ دل محسوس کرتے ہیں جن نے اس ملک کی خاطر قربانیاں دیں اور اپنے لہو سے پاک وطن کے پودے کی آبیاری کی  ۔۔۔

جمعہ، 5 دسمبر، 2014

نرم دم گفتگو گرم دم جستجو

آہ ڈاکٹر سید منصور علی بھی ہم سے جدا ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے
ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اس بات کا یقین ہر مسلمان کو ہے اور اسی یقین کی بدولت انسان بڑے بڑے سانحے برداشت کر لیتا ہے ۔۔۔ سید منصور علی صاحب ایک مشفق اُستاد ، ایک بہترین مُدرس اور چلتا پھرتا تحریک اسلامی کا نمونہ تھے صاف سُتھرا اُجلا لباس پہننا عطر کی خوشبو کا استعمال کرنا اور ہر بڑے چھوٹے سے انتہائی خوش اخلاقی سے پیش آنا ان کی شخصیت کا خاصہ تھا آج ان کی وفات کے بعد کچھ ناقص معلومات کی بنیاد پر چند الفاظ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں سید منصور علی صاحب فزکس میں پی ایچ ڈی تھے کراچی کے رہنے والے تھے
Pak Urdu Installer