بدھ، 6 جنوری، 2016

قاضی بابا فاتح عالم

6 جنوری رات کا آخری پہر تھا اچانک موبائل کی گھنٹی نے جگایا۔۔۔۔ ایک دوست کی کال موصول ہوئی نیند میں کال اُٹھائی آگے سے آنے والی آواز گھبرائی گھبرائی سی تھی، یا اللہ رحم کیا ہوا پوچھا بھائی کیا ہوا ؟ بھرائی ہوئی آواز میں بولا سعد بھائی قاضی صاحب فوت ہو گے ؟؟ مجھے یقین نہیں آیا ۔۔۔۔کس نے کہہ دیا بھائی ؟ ایسا ویسا کُچھ نہیں ہوا فالتو میں کہہ دیا کسی نے اس نے اسی رندھی آواز میں جواب دیا۔۔۔۔۔ٹی وی تو لگائیں اُٹھ کر ٹی وی آن کیا تو دیکھا ہر چینل پر خبر تھی آنسو آنکھوں سے رواں ہو گے ہاتھ کانپنے لگے۔۔۔۔۔

اور دل تھا کہ ڈوبنے لگا بس پھر تو موبائل مسیجز اور کال کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو گیا ہر کوئی کنفرم کرنے کے لیے کال کرے سعد بھائی۔۔آپ منصورہ ہوتے ہیں کیا یہ خبر ٹھیک ہے ؟ گھر میں سب کو اُٹھا کر جب بتایا والدہ سمیت سب بچے رونے لگے والد صاحب جنکی آنکھوں میں کبھی کسی رشتے دار کے مرنے پر آنسو نا دیکھے تھے اپنی آنکھیں چُھپاتے وضو کے لیے واش روم چلے گے دو رکعات نفل کی ادائیگی کی اور دعا کی۔۔یہ وہدن کہ جب میں اس دنیا میں ایک محبت کرنے والی ہستی سے محروم ہوگیا تھا۔۔
وہ ہستی تھی محترم قاضی حُسین احمد کی ہستی وہ فرد جس سے بچپن سے جوانی تک شفقت کا عشق کا محبت کا وہ تعلق قائم ہوا جو شائد مُجھے اپنے والد سے بھی بڑھ کر تھا۔۔۔
وہ جو ہر مشکل گھڑی میں کھڑا تھا جیلوں کی سلاخیں ہوں یا جلسوں یا دھرنوں میں آنسو گیس کے شیل ہوں افغانی کُہسار ہوں یا کشمیری چنار وہ شخص ایک پہاڑ کی صورت ایک طاقت ور بہادر مجاہد کی صورت مُجھے ہر جگہ نظر آیا ۔۔۔ وہ کبھی اچھے باپ کی صورت کبھی اچھے مُربی کی صورت کبھی اچھے دوست اور بھائی کی صورت نظر آیا ہر فن مولا ہر جگہ بہترین قابلیت اور صلاحیت رکھنے والا پایا ۔۔۔۔فاتح عالم
ہاں میں ایک عظیم شخص سے محروم ہو گیا میں محروم ہو گیا اُس سے جس کو بچپن سے سے اتنے قریب سے دیکھا جانا اور سمجھا محبت اور خلوص کا پیکر ہر وقت ہنستا چہرہ میں محروم ہو گیا اپنے قائد اپنے مُربی سے میں محروم ہو گیا اُس مجاہد سے جو کشمیر ہو یا افغانستان ہر جگہ مظلوم کا ساتھی اور پسشتبان تھا میں محروم ہو گیا اس سے جو میرا سب کچھ تھا یا اللہ یہ دکھ میری برداشت سے باہر ہے
پاکستان کی عوام جس کی قدر نہ کر سکی جو پاکستان میں اسلامی انقلاب کی تمنا دل میں لیے اس دنیا سے رخصت ہو گیا جس کا ایک ایک لمحہ اسلام کی بقا اور اس ملک کی سالمیت کے لیے سرگرم عمل تھا افسوس پاکستانی عوام تم نے ہمشہ عظیم لوگوں کی قدر نہ کی افسوس ۔۔۔۔
قاضی صاحب کی ببے پناہ خصوصیات تھیں جن میں سے ایک بہت اچھی اور اہم خصوصیت تھی جس سے ملتے ایسے ملتے کہ وہ شخص سمجھتا کہ یہ مُجھے پہلے سے جانتے ہیں اور اس کو اپنی محبت اور خلوص کا اسیر کر لیتے۔۔
ایک دوست جس کا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں تھا،کسی کام کی غرض منصورہ آیا تو جامع مسجد منصورہ میں نماز کے بعد قاضی صاحب نظر آئے تو بولا یار ملوا دے میں تو ان کو ہمشہ ٹی وی میں دیکھا ہے میں نے کہا ایسی کونسی بات ہے آ جاو۔۔۔۔ آگے بڑھ کر قاضی بابا کو سلام کیا قاضی صاحب نے محبت سے گلے لگایا دوست کو بھی گلے لگایا میں نے بتایا میرا دوست ہے ملنا چاہتا تھا آپ سے ،قاضی صاحب نے کھڑے کھڑے اُس سے اس کا اس کے والدین گھر والوں سب کا حال چال پوچھا دعا دی سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر واپس گئے میرا وہ دوست اتنا متاثر ہوا اتنا مُتاثر ہوا کہنے لگا یار یہبہت عظیم انسان ہے اس کے چہرے پر وہ رعب دبدبہ اور وجاہت تھی کہ میں چہرے پر نظر نا ٹکا سکا ۔۔۔ قاضی صاحب کی ہمہ جہت شخصیت پر لکھنے لگ جائیں تو شائد صفحات ختم ہو جائیں مگر ان کی شخصیت،کردار کی عظمت کی مثالیں ختم نا ہوں گی ۔
میں اپنے آپکو خوش قسمت سمجھتا ہوں میں نے اس عظیم انسان کو بہت قریب سے دیکھا پاس بیٹھ کر باتیں سُنی اور سیکھا وہ شخص نوجوانوں میں بالکل نوجوان تھا اور بزرگوں میں بھی اس کی آواز ایک توانا آواز تھی جس آواز سے ایوان لرزتے تھے اسلامی جمعیت طلبہ کا ہر نوجوان جب یہ نعرہ بُلند کرتا ہم بیٹے کس کے قاضی کے تو سچ پوچھیں یہ محض نعرہ نا ہوتا یہ حقیقت تھی اُس محبت کی ایک جھلک تھی جو نوجوان اُن سے کرتے تھے ایک اشارے پر اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے لوگ ہمہ وقت تیار ہوتے مشرف کے دور میں جب قاضی صاحب کی گرفتاری کا آڑدر ہوا تو مںصورہ کے باہر نوجوان قاضی صاحب کی گاڑی کے آگے لیٹ گے چاروں طرف سے گھیر لیا پولیس کی ہمت نا ہوئی کے قریب آئے قاضی صاحب گاڑی کی چھت سے باہر نکلے خطاب کیا اور پرامن رہنے کی تلقین کی تب پولیس کو آگے انے دیا گیا اور اُن نے گرفتاری دی ۔۔
قاضی صاحب نے ہمشہ امن محبت اور قانون کی پاسداری کا درس دیا وہ جذباتی نوجوان جو اُن کے ایک اشارے پر زمین و آسماں ایک کر سکتا تھا اُسے ہمشہ یہ درس دیا سبق دیا کہ پرٗامن رہو ثابت قدم رہو خفیہ کے بجائے کُھلے عام اپنی دعوت کی طرف لوگوں کو متوجہ کرو اور اپنے عمل اور محبت سے اُن کو اپنا ہمنواہ بناو یہ وہ وصف تھا جس نے ملک پاکستان اور جماعت اسلامی جمعیت سے وابستہ افراد کو زیر زمین تحریکوں اور راستوں کے بجائے پرامن اور آئین اور قانون کے راستے پر چلایا ۔
اُن کی عظمت کا احساس پہلے بھی تھا یقین مزید مستحکم ہو گیا جب پوری دُنیا میں لوگوں نے نماز جنازہ ادا کی کشمیر کے نوجوان فیس بک پر سٹیٹس میں لکھتے ہم اپنے عظیم پشتبان سے محروم ہو گے ہم یتیم ہو گے سید علی گیلانی کا ٹیلی فونک پیغام اور آنسو میں بھری آواز سُنتا تو عظیم شخص کی عظمت کا احساس مزید مستحکم ہو جاتا اپنے گاوں کشمیر گیا تو سارے رشتہ دار پوچھتے افسوس کا اظہار کرتے تو ایسے لگا وہ شخص ہم سب کی لاکھوں لوگوں کی پہچان تھا باپ تھا بھائی تھا بڑا تھا اس لیے ہر ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو لیتا تعزیت کر لیتا جنازے کے مناظر دیکھنے والوں نے دیکھے لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے رہے ہر آنکھ اشک بار تھی میں نے اپنے ہاتھوں سے جسد خاکی کو قبر میں اُتارا مٹی ڈالی ۔۔۔۔
اُن کی وفات کے بعد ہر سیاسی جماعت کا کارکن اور لیڈر جب اُن کی عظمت اور بڑائی بیان کر رہا تھا تو میرا سر فخر سے بُلند ہو گیا سینہ چوڑا ہو گیا کہ میں نے ایک عظیم انسان کا ساتھ دیا جسے شائد دنیاوی کامیابی نا ملی مگر مُجھ جیسے لاکھوں نوجوانوں کو ایک عظیم مقصد اور روشنی کے راستے کا راہی بنا گیا جس نے جماعت اسلامی تحریک اسلامی کو قریہ قریہ نگر نگر پھیلایا دیا ظالمو قاضی آ رہا ہے جیسے نعرے گھر گھر بستی بستی میں پہنچے وہ اپنے حصے کا کام کر گیا ہمارے ذمے کا کام ہمارے کاندھوں پر چھوڑ گیا اب میرا اور مُجھ جیسے لاکھوں لوگوں کا اہم فریضہ ہے اُس کے پیغام کو لوگوں تک لے جائیں جس انقلاب اور اسلامی پاکستان کا خواب وہ آنکھوں میں سجائے اس دُنیا سے چلے گے اُس خواب کی تکمیل ہم کریں اور اس ملک کو اسلامی پاکستان بنا سکیں ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Pak Urdu Installer