پیر، 15 دسمبر، 2014

یوم سقوط ڈھاکہ

یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

سولہ دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن جس دن ملک پاکستان اپنوں کی نادانی اور انا کی تسکین کی بھینٹ چڑھ کر 2 لخت ہوا مشرقی بازو جسم سے علیحدہ ہو گیا جس کا درد جس کا زخم آج بھی وہ دل محسوس کرتے ہیں جن نے اس ملک کی خاطر قربانیاں دیں اور اپنے لہو سے پاک وطن کے پودے کی آبیاری کی  ۔۔۔

مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کیوں بنا آج ہمارے ملک میں نئی نسل کو اس حوالے سے کچھ بتایا نہیں جاتا یا جو بتایا جائے وہ بھی آدھا سچ آج تو اہل اقتدار اس وقت پاکستان کو اکھٹا رکھنے میں پاکستان کی آرمی کا ساتھ دینے والوں کا نام لینا تک گوارہ نہیں کرتے جو آج بنگلہ دیش میں پھانسی کی سزائیں بُھگت رہے ہیں 1971 میں صرف اقتدار کی ہوس اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم علیحدگی کا  سبب بنی بنگالیوں کو قد کے چھوٹا ہونے پر طعنہ دینا اور پٹ سن کی پیدوار کا پیسہ مغربی پاکستان کی سڑکوں پر لگانا یہ سب باتیں اور الزامات بھی زبان زد عام تھے الیکشن ہوئے مغربی پاکستان میں شیخ مجیب اور مشرقی پاکستان میں بھٹو کو اکثریت حاصل ہوئی مگر اقتدار کی ہوس نے دونوں کو اندھا کر دیا ادھر ہم اُدھر تم کے نعرے بلند ہوئے اور آخر کار دشمن نے فائدہ اُٹھایا مکتی باہنی کی صورت میں ہندو اُستاتذہ کی صورت میں جو پہلے سے بنگالی نوجوانوں میں علیحدگی کے جذبات کو اُبھارنے میں مشغول تھے اور یہ تمام مواقع ان کو تب ہی ملے جب ہم نے بنگالیوں کو محروم رکھا ان کا حق ان کو نہ دیا جس کے نتجے میں ان جذبات میں اضافہ ہوا پھر آٹے کے ساتھ گٗھن بھی پستا ہے کہ مصداق ہر جائز ور ناجائز کام کیا گیا فوجی آپریش کا آغاز کر دیا گیا مسائل کو بندوق کی نالی سے ٹھیک کرنے کا ایک غلط فیصلہ کر دیا گیا جو فیصلہ پیار محبت اور مذکرات کی ٹیبل پر حل کیا جا سکتا تھا اُسے بندوق سے ٹھیک کرنے کا سوچا گیا اور اس وقت بھی عقل و فہم رکھنے والوں نے اس سے اجتناب کا مشورہ دیا مگر فیصلہ کرنے والوں نے فیصلہ کر دیا اور طاقت کے نشے میں چور یہ بات تک کہہ دی گی کے کوئی مغربی پاکستان گیا تو اُس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی ازلی دشمن بھارت نے اس ساری صورت حال سے فائدہ اُٹھایا اور اپنی آرمی کے اور ٹرینڈ لوگ مکتی باہنی کی صورت میں مشرقی پاکستان میں اُتار دئیے اور بغاوت کو مذید ہوا دی اس ساری صورت حال پاکستان آرمی کا ساتھ دینے کے لیے البدر اور الشمس نام کے  محب وطن بنگالی نوجوانوں کے گروہ بھی عملی طور پر میدان میں آئے جو پاکستان کو اکھٹا رکھنا چاہتے تھے 10،000 کی تعداد میں ان نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا مگر پاکستان اکھٹا نہ رہ سکا اور 90 ہزرا کی تعداد میں پاکستانی آرمی کو ہتھیار ڈالنے پڑے اس ساری تمہید اور بات کا مقصد صرف اور صرف چند حقائق سے پردہ اُٹھانا تھا مگر آج بنگلہ دیش میں اُس وقت پاکستان کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ ظلم اور زیاتی کی داستانیں رقم کی جا رہی ہیں اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی صرف اور صرف ذاتی انتقام کی وجہ سے ایسا کیا جا رہا ہے جبکہ اس وقت یہ طے ہوا تھا کہ مشرقی اور مغربی دونوں جگہ پر کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے مگر موجودہ بنگالی حکمران حسینہ واجد اپنی ازلی دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو نشانہ بنا رہی ہے جو لوگ بنگلہ دیش بننے کے بعد اُس ملک کے آئین اور قانون کی پاسداری کر رہے تھے اور اس ملک کے وفادار تھے اُن کا جرم یہ تھا کہ وہ متحدہ پاکستان کے حامی تھے مگر اب وہ محب وطن بنگالی تھے ان سب انتقامی کاروائیوں کی کا نشانہ بنگلہ دیش کی تیسری بڑی جماعت جماعت اسلامی کے لوگ تھے جن کے افراد بنگلہ دیش میں خالدہ ضیا کی جماعت کے ساتھ مل کر مشترکہ حکومت کر چکے ہیں اور مختلف وزراتوں پر رہ کر بنگلہ دیش کی عوام کی خدمت کر چکے ہیں مگر آج ان کو اتنے عرصے کے بعد غدار وطن بنا کر انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور عالمی دنیا اور انسانی حقوق کا نام نہاد ٹھیکدار امریکہ اس ساری زیاتی پر لب بند کر کے بیٹھا ہے پاکستانی وزرات خارجہ نے بھی اس مسلئے پر وہ بات اور روایہ نہ اپنایا جو کہ اپنانا چاہیے تھے اور آج اپنے اُن محسنوں کی بات کو عالمی فورم پر اُٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے ۔۔ آج اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد کیا ہم نے اس سے سبق سیکھا کیا ہمارے حکمرانوں کی عادات و اطور میں کوئی تبدیلی آئی کیا اتنے بڑے سانحہ کے بعد اہل قتدار نے وہ روش چھوڑ دی ؟؟ افسوس جب اس بات کو دیکھا سوچا اور پرکھا جاتا ہے تو نظر آتا ہے کہ ہرگز نہیں ہم آج بھی اُس روش کی طرف چل رہے ہیں آج بھی ہم اپنے دشمن کو دشمن کہنے کے بجائے اس سے دوستی اور امن کی آشا کی بات کرتے ہیں ، کشمیر جو ہماری شہ رگ ہے اُس پر بات کرنے کے بجائے آلو پیاز کی تجارت سے لے کر فلموں کی نمائش تک کی بات کی جاتی ہے مگر افسوس ہماری روش نہ بدلی ۔ آج بھی ملک پاکستان ہم سے یہ سوال کرتا ہے یہ گلہ کرتا ہے کیا تم نے مجھے صرف اس لیے حاصل کیا تھا کہ یہاں پر آپس میں فنگ نسل صوبائیت کی بنیاد پر لڑو کیا تمہارے بڑوں نے اس لیے قربانیاں دیں تھیں کہ تم یہاں پر ظلم نا انصافی کا بازار گرم کرو ، کیا میری تخلیق کا مقصد یہ تھا کہ یہاں بدامنی ، بھتہ خوری ٹارگٹ کلنگ ہو انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت نہ ہو ؟ ان سب سوالات کو مجھ سے اور آپ سے وہ لوگ بھی پوچھیں گے روز قیامت جن نے اس ملک کی خاطر قربانیاں دیں ان کے ہاتھ ہمارے گریبان ہوں گے تب کیا جواب دیں گے ذرا سوچیں ؟  قومیں جو سانحات سے سبق سیکھتی ہیں اور آئندہ کوئی ایسا نقصان نہ ہو اس حوالے سے اپنے اندر بہتری لاتی ہیں کوئی تدبیر کرتیں ہیں مگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی جس کی وجہ سے  آج بھی کہیں سندھو دیش ، جاگ پنجابی جاگ ، عظیم بلوچستان کو نعرہ بلند ہوتا ہے جس کی صرف اور صرف وجہ وہ ایک طبقہ ہے جو وسائل کی منصفانہ تقسیم کی راہ میں رکاوٹ ہے اور اس ملک کا اقتدار ان ہی ہاتھوں میں ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر صوبے کے عوام کو ان کا حق دیں وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائیں یکساں سلوک سب کے ساتھ روا رکھیں ان سب مسائل کو حل صرف اور صرف وہ ہی لوگ کر سکتے ہیں جو اقتدار کی ہوس کے بجائے عوام کی خدمت کو اپنا فرض سمجھیں جو اس پاک سر زمین کو اللہ کی نعمت سمجھیں اور اس کی قدر جانتے ہوں اگر ہم اب بھی نہ سنبھلے اور ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو میرے منہ میں خاک کہیں ہمیں پھر کسی اور سقوط ڈھاکہ جیسے سانحہ سے نہ گزرنا پڑے ۔۔۔۔
اللہ میرے ملک کی حفاظت کرے اور اسے ہمشہ قائم رکھے دشمن کی چالوں سے محفوظ رکھے آمین
تحریر : سعد مقصود

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Pak Urdu Installer