جمعہ، 5 دسمبر، 2014

نرم دم گفتگو گرم دم جستجو

آہ ڈاکٹر سید منصور علی بھی ہم سے جدا ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے
ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے اس بات کا یقین ہر مسلمان کو ہے اور اسی یقین کی بدولت انسان بڑے بڑے سانحے برداشت کر لیتا ہے ۔۔۔ سید منصور علی صاحب ایک مشفق اُستاد ، ایک بہترین مُدرس اور چلتا پھرتا تحریک اسلامی کا نمونہ تھے صاف سُتھرا اُجلا لباس پہننا عطر کی خوشبو کا استعمال کرنا اور ہر بڑے چھوٹے سے انتہائی خوش اخلاقی سے پیش آنا ان کی شخصیت کا خاصہ تھا آج ان کی وفات کے بعد کچھ ناقص معلومات کی بنیاد پر چند الفاظ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں سید منصور علی صاحب فزکس میں پی ایچ ڈی تھے کراچی کے رہنے والے تھے
اہل زبان تھے ایک اچھی پرکشش تنخواہ پر کام کر رہے تھے باہر کے ملک میں مگر جماعت اسلامی کے نظم نے رابطہ کیا کہ آپ کی منصورہ لاہور میں ضرورت ہے تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آ گے اور منصورہ لاہور میں رہائش اختیار کی ایک صاحب نے ایک دفعہ پوچھا کہ کبھی آپ کو خیال نہیں آیا کہ آپ اتنی پر کشش جاب چھوڑ کر آ گے اور ساری زندگی سادگی سے گزار دی تو جواب دیا آج تک جب سے چھوڑ کے آیا تو ایک دفعہ بھی ذہن میں یہ خیال نہ آیا کہ میں نے وہ غلط کیا اللہ نے مجھ سے یہاں زیادہ اپنے دین کا کام لے لیا ۔۔۔ تہجد کی نماز پڑھنا معمول تھا ذکر اذکار معمول تھا اور قرآن اور اس کی تفسیر پر مکمل عبور حاصل تھا دور دراز جگہوں پر جا کر درس قرآن دینا لوگوں کو قرآن کے قریب لانے کے لیے اپنا قیمتی وقت لگانا ان کا ایک پسندیدہ مشغلہ تھا جماعت اسلامی کے ادارے سید مودوی انسٹیوٹ میں پڑھاتے تھے اور ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد اندرون ملک اور بیرون ملک موجود ہے ۔۔ جماعت اسلامی لاہور کے نائب امیر تھے اور ایک لمبا عرصہ لاہور سے مرکزی مجلس شوری کے رُکن منتخب ہوئے ۔۔ منصورہ کی بستی میں رہتے ہوئے بچپن سے اُنہیں دیکھتے تھے بچے بزرگوں کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں کم کم ہی قریب جاتے ہیں کہ کہیں ڈانٹ ہی نہ پڑ جائے مگر وہ منصورہ میں کہیں سے بھی آ رہے ہوں تو راستے میں کھیلتے بچے ان سے سلام کرتے اور ایک خاصیت جو ان کی سب سے اچھی تھی وہ یہ تھی کے وہ سلام میں پہل کرتے اگلے بندے کو موقع ہی نہ ملتا کہ وہ سلام میں پہل کر سکے ان کی یہ خاصیت اور ان کا روایہ لوگوں کو ان سے قریب کرتا بچہ ہو یا بڑا ان سے مل کر ایک خوشی کو محسوس کرتا تھا منصورہ مسجد میں ایک لمبا عرصہ اعتکاف کیا ان نے ہمشہ متکف حضرات کے وہ اُستاد اور مُربی ہوتے تھے نوجوانوں پر خصوصی توجہ دیتے خصوصی طور پر ان کو اُٹھا کر اعتکاف میں کُتب کا مطالعہ کرواتے اور اعتکاف کی آخری راتوں میں مسجد کی لائٹس آف کر کے ایسی رقت آمیز دُعا کرواتے کے ہر شخص اشک بار ہو جاتا بہت سی خصوصیات کا حامل یہ شخص بہت سے لوگوں کے لیے نمونہ تھا اپنی اولاد کی بہترین تربیت کی جن کو دیکھ کر آج بھی لوگ رشک کرتے تھے انتہائی سُلجھے ہوئے بیٹے اور بیٹیاں ہیں جو انشا اللہ ان کے لیے صدقہ جاریہ بنیں گے ۔ ڈاکڑ صاحب کی بے انتہا خوبیاں ہیں جن کو بتانا مشکل ہیں بہت سی خوبیوں سے ہم لوگ لا علم ہیں یتیم اور غریب بچے جو اپنی تعلیم کا خرچ برداشت نہ کر سکتے تھے خاموشی سے ان کی مدد کرتے کسی کو علم تک نہ ہوتا ۔۔۔ تحریک اسلامی اور اس کے کام سے جنون کی حد تک محبت تھی اور ساری زندگی سید مودودی کے نظریہ اور اسلام کا پیغام پھیلانے میں صرف کر دی زندگی کی کے آخری دنوں میں کُل پاکستان اجتماع عام کے لیے گھر گھر گلی گلی گئے اور لوگوں سے اجتماع عام میں شرکت کی دعوت کا وعدہ لیا ۔۔ ڈاکٹر منصور علی صاحب کی زندگی ہم سب اور ان کے لیے ایک نمونہ ہے جو زندگی اور  پرکشش تنخواہ اور بہت سی مراعات کو عزیز رکھتے ہیں مگر اس سب کو اللہ کے دین کے کام کی خاطر قربان کرنے کا جذبہ اور ہمت نہیں رکھ پاتے اللہ تعالیِ ڈاکٹر صاحب کو جنت میں اعلی مقام دے وہ حقیقت میں نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی اعلی مثال تھے ہمیں ان کی زندگی سے سبق حاصل کرنے اور تحریک اسلامی کے ساتھ جُڑے رہنے کی تو فیق دے آمین 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Pak Urdu Installer